Mchoudhary

Add To collaction

تحمّل عشق بقلم ملیحہ چودھری

قسط3

____________

" يقین نہ کیا اپنوں نے 
زندگی سے ہم ہار بیٹھے "

وہ دونوں ایک خوشگوار دن گزار کر گھر واپس آ رہے تھے کئی سالوں بعد جیرش نے آج آزادی سے کھل کر سانس لی تھی ، عصر کا وقت تھا معمول کے مطابق آج گرمی اور دن سے زیادہ زور پکڑ رہی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے آگ کے شعلے برس رہے ہو ، گاڑی روڈ پر دوڑ رہی تھی آج بہت ٹریفک تھا اور ویسے بھی دہلی کی سڑکوں پر ٹریفک نہ ہو ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا اور آج تو ویسے بھی سنڈے تھا لوگ باغ اپنی فیملی کے ساتھ گھومنے نکلے ہوئے تھے۔۔۔

گاڑی گھر کے اندر آئی اور پورچ میں آ کر رکی ، دو ملازم بھاگتے ہوئے آئے تھے اُنکی طرف عامر گاڑی سے باہر نکلا اور ملازموں کو سامان اندر رکھنے ما بول کر اپنی بہن کے ساتھ اندر کی طرف بڑھ گیا تھا۔۔

وہ دونوں لاؤنج میں پہنچے تو سامنے ہی آفیرا ٹی وی دیکھتی ہوئی ملی عامر وہیں پر آ کر بیٹھ گیا تھا جبکہ جیرش اپنے روم میں جانے لگی تھی ۔۔۔

"ہو گئی آپ دونوں کی شاپنگ آفیرا نے جیرش کو مخاطب کیا 

"ہممم !!

جیرش کے بجائے عامر کی طرف سے جواب ملا تھا ،  "آفیرا پانی ہی پلا دو ویسے تمہیں خود کو تو دکھتا نہیں ہیں کہ بندہ باہر سے آیا ہے پانی ہی دے دوں عامر نے اپنی چھوٹی بہن سے کہا ، وہ منہ آڑھے ٹیڑھے کرتے ہوئے آٹھ کھڑی ہوتی جیرش کی طرف دیکھا اور کچھ بڑ بڑا تی ہوئی کچن کی طرف چلی گئی تھی۔۔۔

"عامر میں ذرا پیکنگ کر لوں جیرش بولتی وہاں سے چلی گئی تھی جبکہ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا تھا۔۔

"بھائی پانی !! سوچ سے باہر تب نکلا جب آفیرا نے پانی کا گلاس اُسکی طرف بڑھا کر اسکو آواز دی تھی .. وہ تھینک یو بولتا ہوا پانی پینے لگا اور آفیرا پھر سے ٹی وی دیکھنے لگی تھی۔۔

"آج اتنی خاموشی کیوں ہے ؟ عامر نے پانی کا گلاس ٹیبل پر رکھتے ہوئی افیرا سے پوچھا .. " مجھے کیا پتہ ؟ اُس نے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا ۔۔

" کیوں تم گھر پر نہیں تھی جو تمہیں پتہ نہیں ہے !  عامر کو اُسکے یوں کندھے اُچکانے پر غصّہ تو بہت آیا تھا لیکن وہ اپنے غصّے پر قابو پاتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔

" میں گھر پر ہی تھی یوں تمہاری طرح سیر سپاٹوں پر نہیں گھوم رہی تھی.. وہ بگڑ کر بولی ۔

" تمیز تو تمہیں چھوں کر ہی نہیں گزری اُسنے دانت کچکچائے ....

" ہہہہہہ !!

" بسس تمہاری جیرش چہیتی آپی میں ہیں اسکو سنبھال کر رکھو مجھے کوئی شوق نہیں ہے تمیز کو اپنے پاس رکھنے کا وہ غصے سے چلّائی اور پیر پٹکتی وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔

"ہہہہہہ بدتمیز !! 
وہ بھی اپنے روم کی طرف بڑھ گیا تھا۔۔

______________________________________

مغرب ہو گئی تھی رات کے سائے پورے آسمان پر اپنے پر پھیلا چکے تھے آج کی رات کچھ بہت عجیب سی تھی ایسا لگا رہا تھا جیسے یہ بہت بھیانک رات ثابت ہونے والی ہے کسی کی زندگی میں ، لیکن کون جانتا تھا کہ کسی کے حق میں یہ رات بھیانک ثابت ہوگی ؟

وہ پیکنگ کر چکی تھی اب اُسکا ارادہ اپنی ماما کو آگاہ کرنے کا تھا لیکن اس سے پہلے وہ سعد صاحب سے دو ٹوک بات کر لینا چاہتی تھی وہ آئینے میں خود کو ایک نظر دیکھتے روم سے باہر آ گئی وہ اندازہ لگاتے ہوئے سٹڈی روم کی جانب چل دی ۔۔

سٹڈی روم کا دروازہ نوک کیا اندر سے اجازت ملتے ہی وہ دروازہ کھول کر اندر آ گئی تھی معمول لے مطابق سعد صاحب کوئی بک پڑھ رہے تھے۔۔

" و وہ مجھے آپ سے بات کرنی ہے !! 

وہ بغیر سلام کیے ڈائریکٹ بولی اُسکے نزدیک ایسے لوگوں پر سلامتی کیوں بھیجی جائے جو دوسروں کی زندگی کو مذاق سمجھ کر کھلواڑ کرتے ہیں۔

اور سعد  ایسا ہی تو کرنا چاہتے تھے اُسکے ساتھ اُنکے نزدیک وہ ایک لڑکی سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھی اور شائد وہ اسکو طوائف سمجھ رہے تھے یا پھر بنانے کی کوشش کر رہے تھے جو بھی تھا لیکن یہ کام ایک اہوانیت اور ناجائز کام تھا جس کو وہ کرنے کو اُس پر دباؤ ڈال رہے تھے ۔

" میں آپکا کام نہیں کر سکتی جو آپ بول رہے ہیں اُس سے بہتر ہے کہ میں اپنی جان لینا پسند کروں گی ،، 

"شائد آپکے نزدیک لڑکیوں کی عزت نہیں ہوتی ہوگی لیکن میرے لیے یہ ہی میرا سب کچھ ہیں اپنے فیصلہ کرنے کو کہا تھا نہ تو میرے فیصلہ یہ ہے کہ میں ہرگز بھی نہیں کروں گی آپکی یہ بیہودہ خیالات والی آفر کو قبول ،،

وہ ایک ہی زیست میں بول گئی تھی سعد صاحب کئی لمہوں تک اسکو دیکھتے رہے تھے لیکن اچانک وہ بہت ہی خوفناک ہنسی ہنسے تھے ۔۔

" ہاہاہاہا ہاہاہاہا !! 

" تمہیں کیا لگا تُم فیصلہ سناؤگی اور میں مان لوں گا سعد احمد خان کی جس پر ایک بار نظر ٹھہر گئی اُس پر مہر لگ جاتی ہے اب تک میں نے تمہیں سونپا ہوا تھا فیصلہ کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ تم بہت سمجھدار ہو خود کو میرے سپرد خوشی خوشی کرو گی ، لیکن تُم بیوقوف ہو ۔۔

" میں نے تمہاری ماں پر ایسے ہی نہیں تمہیں یہاں لانے کو کہا تھا پاگل تھوڑی ہوں جو اے وی ہی تُم پر اتنا پیسہ برباد کروں گا ،، اب جو پیسہ میں نے تُم پر یوز کیا ہے اسکو تو تمہیں اس صورت میں ادا کرنا ہی ہوگا وہ ایک دم کھڑے ہوئے تھے اور جیرش کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ایک دم اسکو اپنی جانب کھینچنا چاہا تھا جب دروازہ کھلا تھا اور عرها بیگم اندر آئی سعد صاحب نے جیرش کا ہاتھ ھونز پکڑا ہوا تھا اور وہ اپنا ہاتھ اُس ظالم انسان سے کھینچنے کی جدو جہد کر رہی تھی یہ منظر عرها بیگم نے اچھے سے دیکھا تھا۔۔۔

" یہ کیا ہو رہا ہے یہاں ؟؟ عرها بیگم نے اُن دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے غصے سے پوچھا تھا۔

"عرها دیکھو تمہاری بیٹی ی یہ کیا کرنا چاہ رہی تھی میں نے بہت سمجھایا بھی اس کو لیکن یہ بول رہی تھی کہ ...؟ سعد صاحب ایک دم ہی عرها بیگم کو دیکھتے ہوئے اپنا شیطانی دماغ دوڑایا اور اب جو بول رہے تھے وہ نا قابلِ برداشت تھا ۔۔

"کیا ؟ عرها بیگم پوچھا"کہ !! مجھ سے نکاح کر لو ورنہ یہ مجھ پر ریپ کا کیس کر سے گئی ، وہ بول کر خاموش ہو گئے تھے جیرش ایک دم لڑکھڑاتی ہوئی گرنے والی تھی ، جب اُسکی ماما نے اُسکی کلائی پکڑ کر سیدھا کھڑا کیا اور اسکو سنبھلنے تک کا وقت بھی نہیں ملا تھا ایک زور دار چاٹا کھچا کر اُسکے چہرے پر مارا تھا۔۔

چٹاخ خ خ خ !!! 

پورے روم میں چاٹے کی آواز گونجی تھی پھر عرها بیگم کی " اتنا گر جاؤ گی تُم ؟؟ آواز کو سن کر عامر اور آفیرا بھی جلدی سے اپنے روم سے باہر نکل کر سٹڈی روم میں آئے تھے۔۔

آنسوؤں کی لڑی اُسکے آنکھوں سے ٹوٹ کر گالوں سے پھسل کر زمین بوس ہوئی تھی وہ خاموش تھی بلکل خاموش کوئی جوآج پیش نہیں کیا تھا اُسنے کوئی دلائل نہیں تھی ، کیا فائدہ دلائل پیش کرنے کا جب یقین ہی نہ ہو۔۔

عامر نے اپنی جان سے پیاری بہن کی آنکھوں میں آنسوں دیکھے تو تڑپ ہی تو گیا تھا وہ جلدی سے جیرش کے پاس آیا اور اسکو کندھوں سے تھاما  وہ بت بنی بسس اپنی ذات پر لگائے گئے الزام کو سن رہی تھی ۔۔

" ا امی کیا ہوا ،آپ آپی پر کیوں چلّا رہی ہیں؟ عامر نے اپنی ماں سے پوچھا ، عرھا بیگم نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا تھا اور پھر بولی "عامر اس سے کہو کہ یہ میری آنکھوں سے بہت دور چلی جائے ، بولو اس مجھے اسکی شکل بھی نہیں دیکھنی " یہ اتنی بے غیرتی دکھائی گی میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا اسکو شرم نہیں آئی اپنے باپ جیسے انکل کو یہ بولتے ہوئے ۔۔

عرھا بیگم نے غصے سے منہ پھیرتے ہوئے اپنے بیٹے سے کہا تھا۔۔۔

جیرش خاموش کھڑی تھی بلکل خاموش اپنی ماں کے الفاظ سنے تو وہ تڑپ اٹھی اور جھٹکے سے سر اٹھا کر آنسوؤں سے لبا لب آنکھوں سے اپنی ماں کو دیکھا تھا۔۔

یہاں وہ خاموش نہیں رہ سکتی تھی ۔۔

"میرے پاس اپنی بے گناہی کا کوئی ثبوت نہیں ہیں نہ میں اپنی طرف سے آپکو کوئی دلائل پیش کروں گی ، میں جو ہوں ، جیسی ہوں وہ میں خود اور میرا رب جانتا ہے۔ 

"اور ہاں !! اُسنے بول کر اپنی ماں اور وہاں کھڑے ہر نفوس کو دیکھا اور پھر سعد صاحب کو دیکھا جو اُسکی طرف مکروہ ہنسی ہنسے تھے۔

"اور ہاں آپکی حکم کی تعمیل کرنا تو مجھ پر فرض ہے میں کیسے آپکے حکم چھوڑ سکتی ہوں بھلا ، میں آپکو بلکل بھی غلط نہیں کہوں گی کیونکہ جو اپنے دیکھا اپنے سنا اور آپکو بتایا گیا اُس پر یقین کرنا تو آپکے لئے ضروری ہے کیونکہ یہ سب آپکے اپنے ہیں نہ !! 

" صحیح ہیں امی آپ جو بول رہی ہیں بلکل ٹھیک میں آپکو اب کبھی یہاں نظر نہیں آؤں گی ، اتنی دور چلی جاؤں گی کہ آپ اگر بلانا چاہے گی بھی تو نہیں آؤں گی 

"ویسے بھی میں آج رات جانے ہی والی تھی میں زندگی میں اکیلی تھی ، اکیلی ہوں ، اور شائد مستقبل میں بھی اکیلی ہی رہوں۔ 

" تھینک یو عامر میرا ہر قدم پر ساتھ دینے کے لیے ایک بھائی کی کمی اور مجھ پر سائبان رہنے کے لیے وہ آنکھ سے آنسوں پونچھتے عامر سے بولی تھی ۔۔

ایک نظر سب اور ڈال کر وہ بھاگتی ہوئی اپنے روم کی طرف بھاگی اس بیچ سب خاموش تھے اُسکے یوں بھاگنے پر عامر بھی اُسکے پیچھے گیا تھا ۔۔

"آپی آپی !!! وہ دروازہ زور زور سے نوک کر رہا تھا لیکن جیرش نے دروازہ نہیں کھولا پانچ منٹ کے وقفہ کے بعد دروازہ کھول کر جیرش باہر نکلی اُسکے ہاتھ میں سوٹ کیس تھا  وہ اسکو اٹھاتی ہوئی باہر آئی ۔۔

دروازے کے کھلتے ہی عامر اُسکی طرف لپکا تھا ، اور اُسکے ہاتھ میں سوٹ کیس کو دیکھ کر وہ وہیں رک گیا 

" آپی آپ ؟ وہ کچھ بولتا جیرش نے درمیان میں ہی اُسکی بات کاٹی اور بولی ۔

" عامر تُم نہیں جاؤ گے ساتھ ، میرے یہ سفر میرے اکیلے کا ہے جو مجھے خود ہی تنہا طے کرنا ہے ، ہے فکر رہو تمہاری آپی اتنی کمزور نہیں ہے کہ اس سفر کو طے نہیں مر پائے گی ۔

" میں یہاں خاموش اس لیے تھی کہ میں نے جب کچھ کیا ہی نہیں تو اس پر دلائل کیوں دوں ؟ میری بے گناہی کا ثبوت بہت جلد سب کے سامنے آئے گا ۔

" میرے بابا نے مجھے ایک بات سکھائی تھی ، کہ اگر تمہاری موجودگی کسی کے لیے پریشانی کا باعث بنے تو اُس سے دوری اختیار کر لو ، بھلے ہی آپکو خود اذیت سہنی پڑے لیکن آپ پھر بھی مطمئین رہو گے کیونکہ کم از کم آپکی دوری سے اسکو سکون تو میسر ہوا ۔۔

وہ ایک ٹرانس سی میں بول رہی تھی آنکھوں سے اشک جاری تھے ۔

کتنا ازیت ناک ہوتا ہے نہ جب اپنوں کی تلخ باتیں اُنکے الفاظوں سے دل ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو جاتا ہے پھر بھی اُن سے نفرت نہیں ہوتی " پتہ ہے کیوں ؟ کیونکہ اُن سے ہمارا خون کا رشتہ ہوتا ہے لاکھ اُنکے تلخ الفاظ ہو لیکن پھر بھی کہلائے جائے گے اپنے ہی 

وہ آنسوؤں کو پونچھتے آگے بڑھنے لگی تھی دھیرے دھیرے قدم اٹھا رہی تھی جب عامر نے اُسکے ہاتھ سے سوٹ کیس کا ہینڈل لیا اور پھر بولا ۔۔

" آپی میں بھائی ہوں آپکا ساری دنیا کو چھوڑ سکتا ہوں لیکن آپکو نہیں میری بد قسمتی ہیں کہ میں روہیل بابا کا بیٹا نہیں لیکن میری خوش قسمتی ہیں کہ میں آپکا بھائی ہوں جہاں آپ جائے گی وہیں میں جن سے آپکا رشتہ ہوگا اُن سے ہی میرا جہاں رہے گی وہیں میں یہ میرا خود سے وعدہ ہے کہ میں عامر احمد خان آپکے ساتھ سائے کی طرح رہوں گا آپکی ہر مصیبت کو مُجھسے ہو کر گزرنا ہوگا یہ میرا یعنی عامر احمد خان کا آپ سے وعدہ ہے اور اب آپ کچھ نہیں بولے گی اس معاملہ میں ، میں بلکل بھی نہیں سنوں گا ۔۔

وہ حتمی فیصلہ سناتے ہوئے اب اُسکا سوٹ کیس تھامیں لاؤنج میں آیا تھا اور ایک ملازم کو آواز دے کر اُس نے گاڑی کی چابی منگوائی اُسکی اوہ اتنی بلند تھی کہ عرھا بیگم  روم سے باہر آئی تھی اُنکی آنکھیں سرخ ہو رہی تھی سعد صاحب بھی روم۔سے باہر آئے آفیرا بھی ۔۔

عرھا بیگم نے عامر کے ہاتھ میں سوٹ کیس دیکھا تو وہ حیران پریشان سی اپنے بیٹے سے بولی ۔

" ع عامر کہاں جا رہے ہو تم ؟ اپنی ماں کے سوال پر عامر نے چونک کر دیکھا تھا " ہے فکر رہے امی کہیں نہیں جا رہا آپکا بیٹا عامر نے جواب دیا بسس گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں وہ آخر میں اپنے باپ کی طرف دیکھتے بولا تھا۔۔۔

جیسے کہہ رہا ہو آپ بیٹوں کے قابل ہو ہی نہیں " پر بیٹا م میں کیسے رہوں گی تمہارے بغیر یہ الفاظ اُس ماں کے تھے جو ابھی کچھ دیر پہلے اپنی پہلی اولاد سے بول چکی تھی کہ میری آنکھوں سے دور ہو جائے شکل ٹک دیکھنی گوارہ نہیں ہیں اور اب اپنے بیٹے سے بول رہی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے بغیر کیسے رہے گی !! 

ایک تلخ اور زخمی مسکراہٹ جیرش کے ہونٹوں پر رینگ گئی تھی وہ عامر کی طرف بڑھی اور اپنا سوٹ کیس لیتی ہوئے بولی۔۔

" عامر میرے بھائی پرائے لوگوں کے لیے اپنوں کے دل نہیں دکھاتا کرتے ہیں تمہیں میری قسم تُم ان سب یعنی اپنوں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤ گے ۔

" میرا کیا میں رہ لوں گی کہیں بھی ،، وہ آپنے آنسوؤں کو اندر کے جانب دھکیلتی ہوئی سوٹ کیس تھام کر سب پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک الوداعی نظر ڈال کر ایک نئے تنہا سفر کے لیے نکل گئی تھی۔۔

پتہ نہیں اب اُسکے ساتھ کیا ہونے والا تھا ؟ کیا وہ اس سفر میں تنہا ہی رہے گی یہ پھر کوئی اُسکی زندگی میں آئے گا اس سفر کے دوران؟ 

"الفت بدل گئی کبھی نیت بدل گئی 
خود غرض جب ہوتے تو کبھی سیرت بدل گئی
شیطان سے بھی احوانیت بن گئے 
زندگی اُجاڑ کر دوسروں کی 
یقین کے پل توڑ دیتے ہیں 
اپنا قصور دوسروں کے سر پر ڈال کر
کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ حقیقت بدل گئی ،،

______________________________________

کچھ یادیں اتنی بے رحم ہوتی ہے کہ ہم کبھی بھول نہیں پاتے ، اُسکے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا جن کو وہ سوچنا نہیں چاہتا تھا لیکن خود بخود وہ یاد اُسکے سامنے ایک سایہ بن کر آ جاتی تھی ۔۔

" کیا ہوا تھا اُسکے ساتھ ؟ کون سی تلخ یاد تھی جو اس خوبرو نوجوان کو کے وجود سے چمٹی ہوئی تھی ؟ 

وہ جب بھی اس پارک میں آتا تو اُسکی بہت بری حالت ہو جاتی تھی لیکن وہ پھر بھی ہفتہ میں ایک بار آتا ضرور تھا کیونکہ اس پارک سے جہاں اُسکا تلخ ماضی جڑا ہوا تھا وہیں اُسکی خوبصورت یادیں اس پارک سے وابستہ تھی۔۔

اب بھی اُسکے ساتھ یہ ہی ہوا تھا پارک میں گھومتے گھومتے وہ ایک جگہ پر آ کر رُک گیا، رات کے نو ہو رہے تھے موسم ٹھیک نہیں تھا ہلکی ہلکی بارش بھی شروع ہو گئی تھی وہ اریہ سوئمنگ پول سائڈ تھا کچھ بچے پول میں کود کود کر پانی کے مزے لے رہے تھے ، وہ انکوکھڑا ہوا دیکھ رہا تھا اچانک اُسکی سانسیں پھولنے لگی تھی سانس آنا بند ہو گیا تھا دل پر وہ ہاتھ رکھیں کسی چیز کو پکڑنے کی کوشش میں تھا جب شایان نے اسکو تھاما اور اسکو پکڑتے ہوئے ایک بینچ پر بٹھایا تھا جلدی سے پانی کی بوتل اسکو پکڑائی تھی اور وہ اُسکی کمر سہلانے لگا خود ۔۔

سمعان نے پانی پیا تو اچانک کھانسی اٹھنے لگی تھی اُس نے لمبا سانس اندر کھینچ کر باہر چھوڑی اور پانی کی بوتل دوبارہ منہ سے لگائی تھی اس بیچ شایان نے اُسکی کمر کو خوب سہلایا تھا اُسکی حالات تھوڑی دیر میں کچھ سنبھلی تو شایان نے اسکو اٹھایا اور گھورتے ہوئے اسکو گاڑی تک لایا تھا خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی تھی سمعان کے گاڑی میں بیٹھتے ہی اُسنے گاڑی کو روڈ پر ڈال دی تھی۔۔۔

______________________________________

رات کے ساڑھے گیارہ ہو رہے تھے موسم اچانک بہت خراب ہو گیا تھا آسمان میں تیز تیز بجلی کڑک رہی تھی ، تیز ہواؤں کے جھوکے اُسکے اپنے منہ پر تپپڑ کے مانند لگ رہے تھے ، ہلکی ہلکی بارش ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ بھی اُسکے ساتھ اشک بار ہو ، آنکھوں سے آنسوں بھل بھل بہ رہے تھے وہ گھر سے نکل کر آ گئی تھی ، اسکو یہ تو اندازہ تھا کہ سعد صاحب کو منا کرنے کے بعد بہت ڈراما ہوگا ، لیکن یہ بلکل بھی یقین نہیں تھا کہ اُسکی ماں اُس پر یقین نہیں کرے گی ۔۔۔

آج ایک ماں کے ہوتے ہوئے بھی وہ اس بھری دنیا میں تنہا تھی وہ بھی رات کے نو بجے کے قریب اس سنسان سڑک پر ۔۔

وہ کسی ٹرانس میں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی اسکو اپنے اس پاس کا کوئی ہوش نہیں تھا بس اسکو یہ پتہ تھا کہ اب اُسکا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے تنہا سفر طے کرنا ہے اسکو اور وہ بسس اب کمزور نہیں ہے ۔

" میں تنہا نہیں ہوں میرے ساتھ میری کمزوری ہی میری ہمّت ہیں ، جیرش تُو کس لیے روتی ہے؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ تُو جب تین سال کی تھی تب سے ہی تنہا ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ تُو ہر شخص پر بوجھ ہے تیری ماں اب تیری نہیں ہیں وہ تو اُس دن ہی تیری نہیں رہی تھی جس دن اُس نے اپنا نیا گھر آباد کیا تھا وہ خود کو تسلّی دیتی رہی دل کو خوب ڈانٹتی رہی تھی ۔۔

" تیرا یہ تنہا سفر ہے اب تُجھے طے کرنا ہے اکیلے کوئی نہیں ہے تیرے ساتھ گھبرا نہیں جیرش تُو روہیل خان کی بیٹی ہیں جیرش روہیل خان منزل مشکل ہیں لیکن نا ممکن نہیں ،، وہ خود کو حوصلا دے رہی تھی اُسکے دماغ اور دل کی یہ جنگ کافی حد تک شانت بھی ہو گئی تھی۔۔

"کوئی بھی سفر لاحاصل نہیں ہوتا
منزل نہ بھی ملے تو راستے بہت کُچّھ سکھا دیتے ہیں ،،

وہ ایک منٹ کے لیے رکی تھی کندھوں پر ڈالا ہینڈ بیگ کی زپ کھول کر پیسے چیک کئے تھے اُسکے والٹ میں صرف پانچ ہزار روپے تھے وہ مطمئین ہوتی بس سٹینڈ تک پیدل آئی قریب ایک گھنٹہ چلنے کے بعد وہ بہت تھک چکی تھی اور کہیں نہ کہیں ڈر بھی لگ رہا تھا لڑکی تھی ڈر تو تھا ہی  جب گھر کے اندر اپنی عزت کو نکسان پہنچانے والے درندے ہو تو باہر کے لوگوں سے کیا بیر کہ اس درندوں صفت نمہ لوگوں میں عزت محفوظ رہے۔۔

اُس نے حیدرآباد کا ٹکٹ لیا بس کا وقت رات گیارہ بجے کا تھا اُس نے گھڑی میں وقت دیکھا تو ساڑھے دس بج رہے تھے وہ وہیں بس اسٹینڈ پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگی بسس کے آنے کا ایک بات پھر آنکھوں سے آنسوں بہ نے لگے تھے جس کو اُس نے پونچھا تھا۔۔

کھلے بال جو سارے پیچھے کہ جانب گرے ہوئے تھے سرمئی رنگ کا قمیض اور اس پر جینز پہنے وہ سادہ سے حلیہ میں بھی بھی پیاری لگ رہی تھی۔۔

وہ چادر وغیرہ نہیں لیتی تھی جس سوسائیٹی میں وہ رہتی تھی اُس میں کسی کو پتہ بھی نہیں تھا کہ چادر  کیا ہوتی ہیں۔۔

وقت ہوا بس آ گئی وہ سامان اٹھاتی بس کے اندر جا کر بیٹھ گئی اور حیدرآباد کے نئے سفر پر روانہ ہو گئی تھی۔۔۔

پتہ نہیں اب زندگی نے کون سہ نیا موڑ اختیار کرنا  تھا ،اب زندگی کون سی نئی آزمائش اُس سے لینے والی تھی ؟


______________________________________

رات کا اندھیرا ہر سو پھیلا ہوا تھا بارش بند ہو چکی تھی کالی اندھیری گہری سیاہ رات تیز تیز ہوائیں ، گھنے جنگلوں کے درمیان سے نکلتے ہوئے روڈ پر گہری خاموشی کو چیرتی بس کی آواز وہ ان سب کو بیٹھی رات کے اس پہر دیکھ رہی تھی ، سارے مسافر گہری نیند میں تھیں لیکن اُسکی آنکھوں سے نیند سو کوس دور تھی یا پھر وہ سونا ہی نہیں چاہتی تھی ایک دم ٹائر کے چرچرانے کی آواز آئی اور بس جھٹکے سے رکی تھی ایک دم پوری فضاء میں خاموشی چھا گئی اب صرف جانوروں کے بولنے کی آواز سنائی دے رہی تھی ان آوازوں سے اسکو بہت گھبراہٹ ہوئی تھی ، ان آوازوں کو دبانے کے لیے اُسنے اپنے موبائل میں لیڈ لگائی اور سونگ سننے لگی تاکہ یہ آواز دب جائے اور اُسکا ڈر ختم ہو جائے 

وہ گانے سنتے سنتے کب نیند میں چلی گئی اُسکی پتہ بھی نہیں چلا تھا 

بس ایک بار پھر سٹارٹ ہوئی اور اپنی منزل کے لیے آگے بڑھ گئی تھی ۔۔۔

______________________________________

" یار تُو آتا ہی کیوں ہے یہاں جب تیری طبیعت خراب ہو جاتی ہے یہاں پر آ کر ..؟ وہ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے بول رہا تھا جبکہ وہ خاموش بیٹھا باہر دیکھ رہا تھا ۔۔

" اتنا خاموش کیوں ہے ؟ اُس نے تشویش سے اُسکی طرف دیکھا اور پوچھا 

" بول نہ یار مجھے تیری خاموشی چبھتی ہیں بہت دیکھ میں جانتا ہوں میں ماضی میں تیرے ساتھ ہونے والے واقعہ کو نہیں بدل سکتا لیکن آج تیرا دکھ بانٹ تو سکتا ہوں ۔

وہ نے بسی سے اپنے جان سے پیارے دوست کو دیکھ کر بولا تھا 

" جب جب تُو خاموش رہتا ہے میرے اندر وحشت بھر جاتی ہیں تُو میرے لیے میرے بھائیوں جیتنا عزیز ہے میں تُجھے دوست نہیں بھائی مانتا ہوں..

" بسس خدا کے واسطے تُو خاموش نہ رہے کر یار ورنہ ایک دن تیری خاموشی میری جان !!! اس سے پہلے وہ اور کچھ بولتا ایک تپپڑ لگا تھا اسکو بہت تیز سمعان کے ہاتھ کا 

" تُو کبھی یہ الفاظ نہیں نکالے گا منہ سے سمجھا،، وہ غصے سے اُسکو دیکھتے چلّایا اور پھر بولا

" دیکھ رشتے کے نام پر صرف تُو ہی میرا اپنا بچپن سے اب تک رشتوں سے محروم رہا ہوں کچھ رشتے چھین لئے گئے تو کچھ میں نے دور کر دیے خود سے اب صرف ایک تُو ہی میرا اپنا رشتہ اور مجھ میں اور رشتے کھونے کی ہمّت نہیں ہیں آئندہ تو کبھی یہ نہیں بولے گا اُسکی آنکھوں سے دو آنسوں ٹوٹ کر اُسکی شرٹ میں جذب ہو گئے تھے ۔۔۔

سامنے بیٹھے یہ شخص سمعان احمد تو نہیں تھا یہ وہ تو نہیں تھا جس کے چہرے پر ہر وقت سنجیدگی رہتی تھی یہ تو کوئی ٹوٹا بکھرا ہوا وجود تھا سمعان احمد رویا تھا صرف اس لیے کہ اُسکے اپنوں نے بہت دکھ دیے تھے اسکو اس لیے کہ اُسکے پاس رشتوں محبّتوں کی کمی تھی ۔۔

یہ دنیا کتنی ظالم ہے دکھ دیتے وقت یہ نہیں سوچتی کہ کسی کے دل کو دکھا کر تمہیں اُس سے کیا حاصل ہوگا ؟ زندگی کیا صرف دیکھو کا ہی نام ہے؟ اگر زندگی میں اس کے علاوہ بھی کچھ ہے تو وہ کیا ہیں ؟

اُسکے بعد یہ سفر بہت خاموشی کے ساتھ طے کیا جا رہا تھا اُسکے بعد نہ سمعان نے کچھ کہا اور نہ شایان نے کُچّھ پوچھا 

اب گاڑی میں مکمل خاموشی تھی ایک گہرا سکوت 
جس کو کسی نے بھی توڑنا گوارہ نہیں کیا ۔۔۔

______________________________________

" اندھیرے میں روشنی کو پھیلاتا ایک وجود سفید دھوتی پہنے اور اس پر احرام باندھے وہ وجود روئی جیسی روشنی کو چیرتا اُسکے نزدیک آ رہا تھا جیسے جیسے وہ اُسکے نزدیک آتا گیا اندھیرے میں روشنی پھیلتی گئی تھی اب ہر طرف روشنی روشنی بکھر گئی تھی اُس شخص نے ہاتھ میں کچھ قائد کیا ہوا تھا جس کی اُس نے متٹھی بند کی ہوئی تھی۔۔

وہ اپنی آنکھوں کو بند کی ہوئے تھی کیونکہ یہ روشنی اُسکی آنکھوں کو چکاچوند چندھیا رہی تھی اُس نے آنکھوں کو ملتے ہوئے اُس وجود کو دیکھنا چاہا اب وہ وجود تھوڑا تھوڑا صاف نظر آ رہا تھا اچانک اتنی تیز روشنی ہوئی کہ اسکو اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھنا پڑا تھا اور ایک دم روشنی کم ہوتی اسکو محسوس ہوئی تھی ، اُسنے آنکھیں آہستہ آہستہ کھول کر دیکھا تو اسکو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا ، ایک بار پھر آنکھیں بند کر کے کھولی تھی اُس نے اور ایک دم اُس وجود کے گلے لگ گئی تھی۔۔۔

" ب بابا !!! پہلا لفظ جو ادا ہوا زبان سے وہ بابا تھا۔۔

"بابا ا آپ کہاں گئے تھے؟؟ م میں کتنا انتظار کیا آپکا ؟؟ .. وہ زاروں قطار رو رہی تھی اپنے بابا کے گلے سے لگ کر وہ انکو ایسے پکڑے ہوئے تھی کہ اگر تھوڑی بھی پکڑ ڈھیلی پڑی تو کہیں اُسکے بابا اُس سے دور نہ ہو جائے ۔۔

روہیل خان یعنی اُسکے بابا نے دھیرے سے اسکو الگ کیا تھا پھر اُسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اُنہونے اُسکے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے بولے تھے۔

" کتنا بڑا ہو گیا ہے میرے بچہ ماشاللہ !! اور خوبصورت بھی بہت ہو گیا ہے ، وہ مسکرائے اپنی بیٹی کو دیکھ کر 

" بابا آپ کہاں تھے واپس کیوں نہیں آئے آپ میرے پاس ؟ اُس نے سوال کیا اپنے بابا سے 

" بیٹا میں بہت پیاری جگہ ہوں یہاں سے کوئی بھی واپس نہیں آتا ،، اُنہونے جواب دیا اپنی بیٹی کے سوال کا ۔۔۔

" بیٹا میں یہاں صرف اس لیے آیا ہوں تاکہ آپکو سمجھا سکوں۔

" آپ سمجھدار ہو ، خوبصورت ہو اور سب سے بڑھ کر آپ ایک رحمت ہو جو اللہ کو بہت عزیز ہوتی ہیں ، اور رحمت ایسے نہیں ملتی بیٹا رحمت نصیب والوں کو ملتی ہے  میں کھول کر نہیں بتا سکتا ، لیکن اشارہ ضرور دے سکتا ہوں رحمت بہت ڈھکی چھپی ہوتی ہیں رحمت ایسی ہوتی ہے جس پر کسی کی گندی نظر نہ جائے اگر گندی نظر چلی جاتی ہے تو وہ رحمت نہیں رہتی ۔۔اب آپ خود سمجھ جاؤ کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں ؟ آپکو خود طے کرنا ہے کہ آپ کیا کرو گی خود کو چھپاؤ گی یا پھر اس بھیڑ کی گندی نظروں سے خود کو ذلیل کرو گی

" اور ہاں بیٹا آپ کبھی اکیلی نہیں ہے میں ہمشہ آپکے ساتھ ہو اور سب سے بڑھ کر اللہ آپکے ساتھ ہے ۔۔

"میری بات پر غور کرنا یہ بولتے ہوئے اُنہونے اپنے قدم پیچھے کی طرف بڑھا دیے تھے اور وہ بابا بابا بولتی رہ گئی تھی ایک دم ہر جانب وہیں اندھیرا پھیل گیا تھا ۔

"بابا ا ا ا ا !!!!! 
وہ چلّائی اُسکی آواز بہت تیز تھی بس کے سارے مسافر اُسکی طرف متوجہ ہو گئے تھے ایک بوڑھی امّاں وہ جلدی سے اُسکی طرف متوجہ ہوئی ۔۔

" کیا ہوا بیٹا؟ ٹھیک تو ہیں آپ ؟ اُنہونے جیرش سے پوچھا وہ اس پاس دیکھتی اپنے آپکو سنبھال چکی تھی ۔۔

" کچھ نہیں امّاں !! وہ جواب دے کر خاموش ہو گئی ، اور امّاں نے پھر کچھ پوچھنا ٹھیک نہیں سمجھا وہ اب خاموشی سے باہر کا مناظر دیکھ رہی تھی ، ساتھ ہی ساتھ خواب میں بولے گئے اپنے بابا کے الفاظوں پر غور بھی کر رہی تھی ، لیکن فلحال وہ سمجھ نہیں پائی " کہ بابا نے کس چیز کے لیے اسکو بولا ہے ؟

قریب دو گھنٹے بعد وہ حیدرآباد پہنچ گئی تھی ، وہ بس سے سوٹ کیس اٹھاتی ہوئی نیچے اُتری پھر ایک جگہ کھڑی ہو کر چاروں اطراف میں نظریں دوڑائے وہاں کا جائزہ لینے لگی۔

ہر طرف ہریالی کھلی جگہ رش نہ ہونے کے برابر صاف کلین روڈ بلاشبہ وہ جگہ بہت ہی حسین تھی 
وہ سامان اٹھاتی دھیرے دھیرے چلنے لگی ایک جگہ اہ کر وہ رکی وہاں بہت ساری آٹو کھڑی تھی اُس نے اپنے پرس میں کچھ ٹٹولا اور مطلب کی چیز کو ملتے ہی وہ آٹو کی طرف بڑھ گئی آٹو والے کو ہاتھ میں پکڑا ایک کاغذ کہ ٹکڑا دکھایا شائد  اُس میں ایڈریس لکھا تھا آٹو والے نے اسکو بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا وہ سامان کو رکھتی آٹو میں بیٹھ گئی تھی ۔
صحیح کہا ہے کسی نے بہترین زندگی جینے کے لیے حققیت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ سب کو سب کچھ نہیں ملتا یہ ہی تو زندگی ہے جس میں اچھا بھی ہوتا ہے بُرا بھی کسی کو تڑپایا جاتا ہے تو کسی کو مسکرانے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔

اور وہ حقیقت تسلیم کر چکی تھی ، وہ جان گئی تھی کہ اب اسکو اکیلے ہی سفر کرنا ہے بس فرق اتنا تھا کہ درد اپنوں کے دیے زخم کو وہ کبھی بھول نہیں سکتی تھی۔۔۔
بس وہ صبر کر کے رہ گئی تھی ، جب انسان صبر کر لیتا ہے تو پھر وہ ہوتا ہے جو انسان کبھی نہیں سوچتا ،خیر اب جو بھی ہوگا وہ تو وقت سب کو دکھا دے گا۔۔

______________________________________

"اوہ کمبخت انسان کتنا سوئے گا اور ؟؟  وہ اتنی دیر سے اسکو آواز پر آواز لگا رہی تھی لیکن موصوف کو تو جیسے نیند نے پکڑ کر باندھ لیا تھا جو اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔۔

"اوۓ آٹھ جا مہاراج دیکھ تیرے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں مجھے کالیج کے لئے ویسے ہی دیری ہو رہی ہے،، وہ زِچ ہوتی ہوئی بیڈ کے قریب گئی تھی پہلے ریموٹ اٹھا کر اے سی بند کی پھر بیڈ کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی ادھر اُدھر نظریں دوڑائیں وہ کچھ تلاش کر رہی تھی جس سے اس گدھے کہ دماغ ٹھکانہ لگا سکے وہ ذھکی اور اسکو دیکھا جو سر تا پا کمبل سے خود کو ڈھانپے ہوئے تھا وہ برابر سے پانی سے بھرا جگ  اٹھا کر دھیرے دھیرے کمبل کو اپنی طرف کھینچنے لگی جیسے ہی وہ کمبل کھینچتی 

"بهوں ں ں ں !!! 
اس آواز پر وہ اچھلی تھی اور ہاتھ میں پکڑا پانی سے بھرا جگ گھوما تھا ڈر کی وجہ سے اور سارا پانی اُسکے خود کے ہی اوپر گر گیا تھا ۔

" ہاہاہا ہاہاہا ہہہہہہ !!! 
ہنسی تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی " کیا ہوا ؟ مجھ پر پانی ڈالنا تھا نہ ؟ ڈالے گی نہیں اب پانی میرے اوپر ؟ وہ ہنستے ہوئے اُس سے پوچھ رہا تھا اور اُسکی طرف ایسے گھور رہی تھی جیسے ابھی کچہ چبہ جائے گی۔

ہیزل  موٹی موٹی آنکھیں بھرے بھرے پنکھڑی جیسے لب شولڈر تک آتے بال وہ پتلی سی لڑکی بہت ہی شرارتی تھی ملٹی رنگ کی کميز اور وائٹ ٹراوزر پہنے جس پر دوپٹہ سائڈ میں ڈالا ہوا تھا وہ اب پوری سر تا پا بھیگ چکی تھی ۔۔

ہاں سارہ نعیم پانی گرنے کی وجہ سے پوری بھیگ چکی تھی ۔۔

"اوۓ محسین کے بچے آج تُو بچ مجھ سے وہ چلّائی تھی،،

" پہلے پکڑ تو لیں ،، اُس نے یہ بول کر باہر کو دوڑ لگا  دی آگے آگے محسین تھا جبکہ پیچھے پیچھے سارہ نعیم تھی ، اور اُنکے پیچھے ہنستی مسکراتی خوشیاں تھی جو اُنکے نصیبوں پر ہنس رہی تھی۔۔

کون جانتا ہے کہ اُن دونوں کے یہ خوشی ہمیشہ قائم رہے گی ؟ یہ تو بس وقت ہی بتا سکتا تھا جو کہ وہ بھی اللّٰہ کا محتاج تھا۔

______________________________________
So guy's jldi se jaye epi 3 read kro ...
Do Vote share n ur reviews  
Comment box mein jroor btana aaj ka epi kaisa lga. .
Mujhe intezaar rahe ga aapke reviews ka..
🤗🤗🤗
Aap sab ki piyari..
🤗🤗🤗🤗🤗🤗
Maliha Choudhary...


   9
6 Comments

Sobhna tiwari

13-May-2022 02:36 PM

Wait

Reply

Farida

13-May-2022 10:28 AM

Behud khubsurat

Reply

Abraham

13-May-2022 10:09 AM

Har qirdar ko bahut khubsurati se numaya kia he

Reply